دل ناداں بچپن میں سرخ آندھی دیکھ کر بے حد بے چین ہو جاتا تھا کہ ضرور کہیں کسی بے گناہ کا خون ہوا ہے۔ اب قتل عام کا ہول سیل کاروبار جاری ہے اور سرخ آندھی اس سیاہ بخت معاشرہ کی طرف منہ بھی نہیں کرتی۔ کھوپڑیوں کے مینار بنانے کے ایکسپرٹ پہلے چنگیز، ہلاکو اور تیمور وغیرہ ہوتے تھے اب ہم نے اس ’’ٹیکنالوجی‘‘ میں ایسی مہارت حاصل کر لی ہے کہ دنیا ہمیں حیرت و حسرت سے دیکھتی اور رشک کرتی ہے۔ پہلے تلواریں چلتی تھیں، اب ڈالر چلتا ہے۔ بے گناہوں کے بدن چیتھڑے بنانے، معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی، گھٹیا موبائل کے لئے سینے میں گولی اتارنے، ڈھٹائی سے بیرون ملک مزید جائیدادیں خریدنے، سیاست اور جمہوریت کے نام پر ملک کو فیملی افیئر بنانے اور کٹے ہوئے سر پکڑ کر فوٹو سیشن کروانے تک..... ہے کوئی ہم سا؟ ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
کمروں میں زندہ اور قبروں میں مردے محفوظ نہیں لیکن پھر بھی گڈ گورننس کے ڈھول بج رہے ہیں۔ بد اخلاقی، بدتمیزی اور بیہودگی تو ایسے سمجھو جیسے کھانے کے ساتھ اچار، سلاد اور چٹنی ہوتی ہے۔ وحشت اور بربریت میں بھی کوئی سٹائل ہوتا تھا لیکن اب تو جو کچھ بھی ہے..... فری سٹائل ہے۔ کبھی مجرموں کے بھی کچھ اصول، قاعدے، ضابطے ہوتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے کسی محفل میں ایک پولیس افسر لوگوں کو پولیس مقابلے میں مارنے کے قصے سنا رہا تھا۔ بولا ہم فلاں کو پولیس مقابلے میں مارنے کے لئے کسی ویرانے میں لے جا رہے تھے کہ مقتول نے سگریٹ کی فرمائش کی۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا تو ہنس کر بولا ’’صاحب! میں جانتا ہوں کہ تم لوگ مجھے پولیس مقابلے میں مارنے کے لئے لے جا رہے ہو سو مرنے سے پہلے کم از کم مجھے میرے فیورٹ برانڈ کا سگریٹ ہی پلا دو۔‘‘ مجرم کے لئے اس کا پسندیدہ برانڈا خریدا گیا اور تھوڑی دیر بعد قتل کر دیئے جانے والے شخص نے جی بھر کے سگریٹ کے کش لگائے۔ ویرانے میں لے جا کر گولی مارنے سے پہلے مجرم سے کہا گیا ’’بھاگو‘‘ کہ قاتل و مقتول کے درمیان مخصوص فاصلہ درکار ہوتا ہے ورنہ پولیس مقابلہ نہیں بنتا۔ مجرم نے ہنستے ہوئے کہا
’’صاحب! تم جانتے ہو کہ میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں اور نہ ہی پیٹھ پر گولی کھائوں گا۔ تم بھاگو اور اپنی مرضی کے فاصلے سے میری چھاتی پر گولی ما دو۔‘‘
عرض کرنے کا مقصد یہ کہ کبھی مجرموں کا بھی کوئی سٹائل ہوتا تھا، کچھ ادب آداب ہوتے تھے لیکن اب تو بے حمیتی اور بے غیرتی کی انتہاء ہے۔ چھپ چھپا کر دھوکے سے وار کرتے ہیں بلکہ ریموٹ پر بہادری دکھاتے ہیں۔ نہ معصوم بچہ دیکھا نہ قبر کنارے کا بوڑھا نہ عورت دیکھی نہ ہیجڑا اور سمجھ لیا کہ دنیا فتح کرنے کی طرف ایک اور قدم آگے جا پہنچے انہیں دیکھ کر تو تاتاریوں کی روحیں بھی کانپ اٹھتی ہوں گی کہ لاکھ ظلم سہی..... میدان کے مرد تو تھے صرف مارنا ہی نہیں مرنا بھی جانتے تھے اور وہ بھی للکار کر کھلے میدان میں۔ شکار کرنے میں بھی کوئی رکھ رکھائو ہوتا ہے جو کب کا بالائے طاق رکھ کر بھلا دیا گیا۔
وحشی درندوں میں بھی کوئی ’’کلاس‘‘ ہوتی ہے۔ میں نے خود ٹی وی پر یہ منظر دیکھا کہ ہرنی کو مار کر کھانے کے بعد شیرنی اس کے بچے کے ساتھ کھیلتی اور اسے اپنے بچوں کے ساتھ پالتی رہی۔ اتنا ہی ضروری ہے تو بھائی! بالغوں کو مار کر ان کے بچوں کو تو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دے دو کہ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں اور کون جانے کہ اگر انہیں بچپن میں ہی نہ مار دیا جائے اور جوان ہونے کا موقع دے دیا جائے تو کل یہ تمہیں ہی جوائن کر لیں کیونکہ ملکی حالات جتنی تیزی سے جس طرف لے جائے جا رہے ہیں، اس ملک کے بیشتر بچوں کے پاس خود کش بمبار بننے کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی باقی نہ رہے گا۔ ہر بچہ ’’ڈار بمبار‘‘ سمجھو۔
اس حکومت جتنی ہی پرانی پیش گوئی ہے کہ اول تو لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی اور اگر کبھی ہو بھی گئی تو تب بھی ختم نہیں ہو گی کہ عام آدمی کی قوت خرید سے بہت باہر نکل چکی ہو گی۔ امریکہ نے تو ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی صرف دھمکی دی تھی۔ اس کار خیر کے لئے اپنے ہی بہت کافی ہیں۔ لہو کی کہانی میں لوڈ شیڈنگ ڈالنا اس لئے ضروری ہے کہ اس کا تعلق براہ راست ملک کی اقتصادی حالت کے ساتھ ہے جسے آخری دموں پر سمجھ کر پہلے ہی مصنوعی تنفس کے سہارے جعلی سانسیں لے رہی ہے۔
معاشرہ ..... معاش کی کوکھ میں پلتا ہے اور جب معاش ہی زندہ لاش میں تبدیل ہو جائے تو ..... کیوں اپنے بم بارود ضائع کر رہے ہو۔ پھر بھی اگر لہو گرم رکھنے کے لئے الٹنا پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا اتنا ہی ضروری ہو تو پلیز! معصوم بچوں کو سپیئر کر دیا کرو کیونکہ یہ مستقبل میں تمہارے ہی دست و بازو ہوں گے لیکن پھر وہی بات جو عدیم ہاشمی مرحوم نے برسوں پہلے لکھی تھی کہ
’’بموں کی آنکھیں نہیں ہیں
جو دیکھ کر پھٹیں
اور اپنے ٹکڑوں کو بے گناہوں سے دور پھینکیں‘‘
کمروں میں زندہ اور قبروں میں مردے محفوظ نہیں لیکن پھر بھی گڈ گورننس کے ڈھول بج رہے ہیں۔ بد اخلاقی، بدتمیزی اور بیہودگی تو ایسے سمجھو جیسے کھانے کے ساتھ اچار، سلاد اور چٹنی ہوتی ہے۔ وحشت اور بربریت میں بھی کوئی سٹائل ہوتا تھا لیکن اب تو جو کچھ بھی ہے..... فری سٹائل ہے۔ کبھی مجرموں کے بھی کچھ اصول، قاعدے، ضابطے ہوتے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے کسی محفل میں ایک پولیس افسر لوگوں کو پولیس مقابلے میں مارنے کے قصے سنا رہا تھا۔ بولا ہم فلاں کو پولیس مقابلے میں مارنے کے لئے کسی ویرانے میں لے جا رہے تھے کہ مقتول نے سگریٹ کی فرمائش کی۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا تو ہنس کر بولا ’’صاحب! میں جانتا ہوں کہ تم لوگ مجھے پولیس مقابلے میں مارنے کے لئے لے جا رہے ہو سو مرنے سے پہلے کم از کم مجھے میرے فیورٹ برانڈ کا سگریٹ ہی پلا دو۔‘‘ مجرم کے لئے اس کا پسندیدہ برانڈا خریدا گیا اور تھوڑی دیر بعد قتل کر دیئے جانے والے شخص نے جی بھر کے سگریٹ کے کش لگائے۔ ویرانے میں لے جا کر گولی مارنے سے پہلے مجرم سے کہا گیا ’’بھاگو‘‘ کہ قاتل و مقتول کے درمیان مخصوص فاصلہ درکار ہوتا ہے ورنہ پولیس مقابلہ نہیں بنتا۔ مجرم نے ہنستے ہوئے کہا
’’صاحب! تم جانتے ہو کہ میں بھاگنے والوں میں سے نہیں ہوں اور نہ ہی پیٹھ پر گولی کھائوں گا۔ تم بھاگو اور اپنی مرضی کے فاصلے سے میری چھاتی پر گولی ما دو۔‘‘
عرض کرنے کا مقصد یہ کہ کبھی مجرموں کا بھی کوئی سٹائل ہوتا تھا، کچھ ادب آداب ہوتے تھے لیکن اب تو بے حمیتی اور بے غیرتی کی انتہاء ہے۔ چھپ چھپا کر دھوکے سے وار کرتے ہیں بلکہ ریموٹ پر بہادری دکھاتے ہیں۔ نہ معصوم بچہ دیکھا نہ قبر کنارے کا بوڑھا نہ عورت دیکھی نہ ہیجڑا اور سمجھ لیا کہ دنیا فتح کرنے کی طرف ایک اور قدم آگے جا پہنچے انہیں دیکھ کر تو تاتاریوں کی روحیں بھی کانپ اٹھتی ہوں گی کہ لاکھ ظلم سہی..... میدان کے مرد تو تھے صرف مارنا ہی نہیں مرنا بھی جانتے تھے اور وہ بھی للکار کر کھلے میدان میں۔ شکار کرنے میں بھی کوئی رکھ رکھائو ہوتا ہے جو کب کا بالائے طاق رکھ کر بھلا دیا گیا۔
وحشی درندوں میں بھی کوئی ’’کلاس‘‘ ہوتی ہے۔ میں نے خود ٹی وی پر یہ منظر دیکھا کہ ہرنی کو مار کر کھانے کے بعد شیرنی اس کے بچے کے ساتھ کھیلتی اور اسے اپنے بچوں کے ساتھ پالتی رہی۔ اتنا ہی ضروری ہے تو بھائی! بالغوں کو مار کر ان کے بچوں کو تو اپنے بچوں کے ساتھ کھیلنے کی اجازت دے دو کہ بچے تو بچے ہی ہوتے ہیں اور کون جانے کہ اگر انہیں بچپن میں ہی نہ مار دیا جائے اور جوان ہونے کا موقع دے دیا جائے تو کل یہ تمہیں ہی جوائن کر لیں کیونکہ ملکی حالات جتنی تیزی سے جس طرف لے جائے جا رہے ہیں، اس ملک کے بیشتر بچوں کے پاس خود کش بمبار بننے کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی باقی نہ رہے گا۔ ہر بچہ ’’ڈار بمبار‘‘ سمجھو۔
اس حکومت جتنی ہی پرانی پیش گوئی ہے کہ اول تو لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی اور اگر کبھی ہو بھی گئی تو تب بھی ختم نہیں ہو گی کہ عام آدمی کی قوت خرید سے بہت باہر نکل چکی ہو گی۔ امریکہ نے تو ہمیں پتھر کے زمانے میں دھکیلنے کی صرف دھمکی دی تھی۔ اس کار خیر کے لئے اپنے ہی بہت کافی ہیں۔ لہو کی کہانی میں لوڈ شیڈنگ ڈالنا اس لئے ضروری ہے کہ اس کا تعلق براہ راست ملک کی اقتصادی حالت کے ساتھ ہے جسے آخری دموں پر سمجھ کر پہلے ہی مصنوعی تنفس کے سہارے جعلی سانسیں لے رہی ہے۔
معاشرہ ..... معاش کی کوکھ میں پلتا ہے اور جب معاش ہی زندہ لاش میں تبدیل ہو جائے تو ..... کیوں اپنے بم بارود ضائع کر رہے ہو۔ پھر بھی اگر لہو گرم رکھنے کے لئے الٹنا پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا اتنا ہی ضروری ہو تو پلیز! معصوم بچوں کو سپیئر کر دیا کرو کیونکہ یہ مستقبل میں تمہارے ہی دست و بازو ہوں گے لیکن پھر وہی بات جو عدیم ہاشمی مرحوم نے برسوں پہلے لکھی تھی کہ
’’بموں کی آنکھیں نہیں ہیں
جو دیکھ کر پھٹیں
اور اپنے ٹکڑوں کو بے گناہوں سے دور پھینکیں‘‘
No comments:
Post a Comment