Sunday 1 February 2015

ہبلن سمتھ ایک نوجوان برطانوی نرس تھیں جو مبینہ طور پر 20 مئی 1979ءکو سعودی عرب میں ایک بلند عمارت کی بالکونی سے گر کر ہلاک ہوگئیں مگر ان کی لاش کو تدفین کیلئے 30 سال سے بھی زائد عرصے تک انتظار کرنا پڑا۔ تفصیلات کے مطابق 23 سالہ ہبلن جدہ شہر میں ایک پارٹی میں شریک تھیں جس میں ایک ولندیزی جہازراں 35 سالہ جوہانس اوٹن بھی شریک تھے۔ ہبلن اور جوہانس دونوں 70 فٹ بلندی سے سڑک پر گرے اور ان کے لباس بھی قابل اعتراض حالت میں پائے گئے۔ سعودی تحقیق کے مطابق دونوں نشے کی حالت میں جنسی قربت کے دوران یا بعد میں بے قابوہوکر گرے تھے اور برطانوی حکومت نے بھی اس تحقیق سے اتفاق کیا مگر ہبلن کے والد ران سمتھ نے اپنی بیٹی کی موت کو قتل قرار دیا اور ان کا کہنا تھا کہ سعودی اور برطانوی حکومت اصل حقائق پر پردہ ڈال رہی تھیں۔ انہوں نے اصل حقائق سامنے آنے تک بیٹی کو دفنانے سے انکار کردیا۔ ران سمتھ 30 سال تک اپنی بیٹی کے قتل کے اصل حقائق جاننے کیلئے کوشاں رہے اور اس دوران ہبلن کی لاش لیڈز جنرل افرمری نامی ہسپتال کے سرد خانے میں رکھی رہی۔ ہبلن کی موت کے پیچھے اصل کہانی تو سامنے نہ آسکی لیکن برطانوی حکومت نے بیرون ملک ہلاک ہونے والے اپنے شہریوں کی موت کی تحقیق کرنے کے لئے نئے قوانین بنائے اور ران سمتھ سے گزارش کی گئی کہ وہ بیٹی کی لاش دفنا دیں۔ ران نے اپنی اہلیہ سے مشورے کے بعد بالآخر 2009ءمیں ہتھیار ڈال دئیے اور بالآخر 30 سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد ہبلن کی آخری رسومات باقاعدہ طور پر ادا کردی گئیں۔ اس عرصہ کے دوران ان کا چھ دفعہ پوسٹمارٹم کیا گیا اور طویل ترین تحقیقات کی گئیں جنہیں صدی کی تحقیقات بھی کہا جاتا ہے۔ نئے قوانین کے اثرات بعد میں آنے والے ہزاروں Cases پر مرتب ہوئے اور شہزادی ڈیانا کی موت کی تحقیق بھی انہیں قوانین کے تحت کی گئی-


No comments:

Post a Comment

If You Like This Post. Please Take 5 Seconds To Share It.


comments please

SEND FREE SMS IN PAKISTAN