Friday 6 February 2015

امریکہ کی ایک جیل میں قید القاعدہ کے سابق کارکن نے سعودی عرب کے شاہی خاندان کے بارے میں حقائق کا انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب کا شاہی خاندان سنہ 1990 کی دہائی سے القاعدہ کی مالی معاونت کررہا ہے اور اس نے امریکہ میں سعودی سفارت خانے کے ایک رکن سے امریکی صدر کے جہاز کو سٹنگر میزائل کے ذریعے مار گرانے کے منصوبے پر بات چیت بھی کی تھی۔میڈیا کے مطابق بی بی سی نے نیویارک ٹائمز کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ نیو یارک کی ایک عدالت کے جج جارج بی ڈینیل کو جو گیارہ ستمبر سنہ 2001 کے حملوں میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کی طرف سے دائر کردہ ایک درخواست کی سماعت کر رہے ہیں القاعدہ کے رکن زکریا موساوی نے گذشتہ سال ایک خط ارسال کیا تھا جس میں انھوں نے اس مقدمے میں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کی خواہش ظاہر کی تھی۔اس بارے میں محکمہ انصاف کے ساتھ طویل بات چیت کے بعد وکلا کی ایک ٹیم کو گذشتہ اکتوبر میں جیل میں زکریا موساوی کا بیان لینے کی اجازت دی گئی۔ موساوی نے سعودی عرب کے موجودہ شاہ سلمان اور شاہی خاندان کے دیگر افراد سے اپنی ملاقاتوں کی تفصیل فراہم کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے اسامہ بن لادن کے پیغام ان تک پہنچائے تھے۔سعودی عرب نے افغانستان میں سویت یونین کے قبضے کے دوران امریکہ کے ساتھ ملکر کر ’مجاہدین‘ کی بھرپور حمایت کی تھی۔ بعد ازاں یہی مجاہدین القاعدہ کے لیے افرادی قوت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ثابت ہوئے۔موساوی کے بیان کے مطابق سعودی عرب اور القاعدہ کے سنہ 2001 سے پہلے کے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں اہم حقائق سامنے آئیں گے۔ سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل بیان جو کہ امریکہ کی وفاقی عدالت میں پیش کیا گیا اس میں موساوی ایک پرسکون اور معقول آدمی نظر آئے۔ موساوی سے ملاقات کرنے والے ایک وکیل کا کہنا تھا کہ انھیں موساوی ایک صحیح الدماغ اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے والا شخص نظر آئے۔جیل میں ریکارڈ کرائے گئے اپنے بیان میں انھوں نے کہا کہ سنہ 1999۔ 1998 میں انھیں القاعدہ کے رہنماؤں کی جانب سے تنظیم کو مالی معاونت فراہم کرنے والوں کی ایک فہرست مرتب کرنے کو کہا گیا۔انھوں نے کہا کہ اس فہرست میں سعودی شہزادہ ترکی الفصیل جو اس وقت سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ بھی تھے، سعودی شہزادہ بندر بن سلطان جو ایک عرصے تک امریکہ میں سعودی سفیر رہے سعودی شہزاہ الولید بن طلال اور بہت سی سعودی سرکردہ شخصیات شامل ہیں۔ موساوی نے کہا کہ وہ بن لادن کے ذاتی پیغام رساں بن گئے تھے اور ان کے پیغامات سعودی شہزادوں اور مذہبی رہنماوں تک پہنچاتے تھے۔انھوں نے افغانستان میں القاعدہ کے کیمپ میں تربیت حاصل کرنے کی بھی تفصیلات فراہم کیں۔انھوں نے 750 کلو گرام دھماکہ خیز مواد سے لدے ایک ٹرک کے ذریعے لندن کے امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کے مجوزہ منصوبے کی تربیت بھی حاصل کی اور بعد میں کینیا اور تنزانیہ میں امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنانے کے لیے یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔انھوں نے فصلوں پر چھڑکاو کرنے والے طیاروں کے ذریعے دہشت گردی کا حملہ کرنے کے منصوبے پر بھی کام کیا۔اس کے علاوہ انھوں نے امریکی صدر کے طیارے ایئر فورس ون کو بھی گرانے کے منصوبے پر بھی غور کیا۔انھوں نے کہا کہ جب سعودی حکام نے قندہار کو دورہ کیا تو اس وقت انھوں نے ان سے ملاقاتیں کیں۔ انھوں نے کہا ’مجھے ان کے ساتھ واشنگٹن جانا تھا تاکہ ایئر فورس ون کو نشانہ بنانے کے لیے جگہ اور اس کے بعد ممکنہ فرار کے راستے کا تعین کیا جا سکے


No comments:

Post a Comment

If You Like This Post. Please Take 5 Seconds To Share It.


comments please

SEND FREE SMS IN PAKISTAN