Monday 24 March 2014

وزیراعظم ڈاکٹر محمد نواز شریف نے نیوکلیئر سپلائر گروپ سمیت تمام برآمدی جوہری سمجھوتوں میں شامل کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری ریاست ہے، ہمارے جوہری اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں، جوہری عدم پھیلاؤ پر یقین رکھتے ہیں، جوہری دہشتگردی کے خطرے سے بچنے کیلئے سب کو ملکر کام کرنا ہوگا، جوہری سلامتی کے لئے دوسرے ممالک کو تربیت فراہم کر سکتے ہیں، پاکستان 40سال سے ایٹمی بجلی گھر چلا رہا ہے اس کے پاس ڈھانچہ، افرادی قوت اور مکمل صلاحیت موجود ہے۔ دی ہیگ میں تیسری جوہری سلامتی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ پاکستان 40سال سے محفوظ ترین جوہری پروگرام پر عمل پیرا ہے، جوہری تحفظ کے حوالے سے پاکستان نے ہمیشہ تعمیری کردار ادا کیا، یہ ہماری قومی ذمہ داری اور عالمی ترجیح ہے، جوہری سہولتیں اور مواد محفوظ بنانے کیلئے اقدامات جاری رہنے چاہئیں، تاکہ جوہری مواد کی دہشتگردی سے بچا جا سکے، پاکستان کے پاس سول جوہری توانائی پیداوار کے لئے تجربہ، افرادی قوت ڈھانچہ موجود ہے ہم سب کو ہسپتالوں، صنعت اور تحقیق کیلئے تابکاری مواد کی ضرورت ہے تاہم ہمیں ان کے خطرات سے بھی آگاہ رہنا ہو گا، پاکستان جوہری تحفظ کو بے حد اہمیت دیتا ہے کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی کا معاملہ ہے، پاکستان ذمہ دار ایٹمی ریاست ہے، ہم جوہری عدم پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ کم سے کم جوہری ہتھیاروں پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے خطے کی ترقی کے لئے امن اور استحکام ناگزیر ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے ہمیشہ جوہری عدم پھیلاؤ روایتی طاقت میں توازن اور تصادم کے حل کے مختلف طریقوں کی بھرپور وکالت کی ہے، ہماری جوہری سلامتی کے پانچ ستون ہیں، جن میں نیشنل کمانڈ اتھارٹی کی قیادت میں مضبوط کمان اینڈ کنٹرول سسٹم، انٹیلی جنس کا مضبوط نظام اور اس مواد سے بھرپور عالمی تعاون شامل ہے، ہماری جوہری مواد اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں، اس حوالے سے حفاظت کا مربوط نظام قائم کیا گیا ہے، جوہری سلامتی اور تحفظ کے حوالے سے ہم نے خصوصاً تربیتی کورسز کے لئے مرکز قائم کئے، پاکستان اپنی تربیتی سہولتیں اور اس حوالے سے دوسرے اقدامات خطے سمیت دنیا بھر کے ملکوں کے ساتھ شیئر کرنے کیلئے تیار ہے، ہم نے جوہری اور تابکاری مواد کی غیر قانونی نقل وحرکت روکنے کیلئے مختلف مقامات تابکاری مواد کا پتہ لگانے کیلئے مربوط نظام قائم کیا ہے، پاکستان جوہری تحفظ کے حوالے سے عالمی ادارے کے ساتھ ملکر کام کر رہا ہے۔ میں چار سال قبل جوہری سلامتی کا یہ عمل شروع کرنے پر صدر بارک اوباما کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، ماضی کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم فیصلوں اور عزائم کے ساتھ مشترکہ طور پر بین الاقوامی تعاون کو فروغ اور جوہری سلامتی کا کلچر قائم کرسکتے ہیں، پاکستان نے اس عمل میں تعمیری کردار ادا کیا، ہم سب جوہری سلامتی چاہتے ہیں جو ہماری قومی ذمہ داری اور عالمی ترجیح ہے، ہمیں ایسے اقدامات جاری رکھنا ہوں گے جن سے تمام جوہری تنصیبات اور مواد کو محفوظ بنایا جاسکے اور کسی بھی جوہری دہشتگردی کے خطرے پر قابو پایا جاسکے۔ ہمیں سب کو اپنے ہسپتالوں، صنعت اور تحقیق کیلئے تابکاری ذرائع کی ضرورت ہے لیکن ہمیں تابکاری کے خطرات سے بھی خبردار رہنا چاہئے۔ پاکستان جوہری سلامتی کو بڑی اہمیت دیتا ہے کیونکہ اس کا قومی سلامتی سے براہ راست تعلق ہے، قابل اعتماد ،کم از کم عسکری صلاحیت پر یقین رکھتے ہیں۔ اقتصادی ترقی کیلئے ہمارے خطے کو امن و استحکام کی ضرورت ہے تاکہ عوام اس سے فائدہ اٹھا سکے۔ یہی وجہ ہے کہ میں جوہری تحمل، روایتی فورسز کے توازن اور تنازعات کے حل کی وکالت کرتا ہوں۔ ہمارے سلامتی سمجھوتے میں جسمانی تحفظ، مواد پر کنٹرول اور محاسبہ کے ساتھ ساتھ سرحد پر کنٹرول اور تابکاری ہنگامی حالات کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ ہمارا جوہری مواد، تنصیبات اور اثاثے مکمل طور پر محفوظ ہیں۔ پاکستان کے جوہری سیکورٹی سمجھوتے کی بنیاد مختلف سطح پر دفاع کی ہے، جس میں اندرونی، بیرونی دفاع کے ساتھ ساتھ سائبر خطرے پر بھی توجہ دی گئی ہے۔ ہم نے سینٹر آف ایکسیلینس قائم کیا ہے جو جوہری سلامتی، جسمانی تحفظ اور انفرادی صلاحیت میں اضافے کیلئے خصوصی کورس کراتا ہے۔ پاکستان اپنے خطے اور اس سے باہر دلچسپی رکھنے والے ملکوں سے تربیتی سہولیات میں تعاون کیلئے تیار ہے۔ ہم نے تابکاری پر نظر رکھنے کیلئے نظام بھی نافذ کیا ہے جو مختلف داخلی اور خارجی مقامات پر قائم ہے تاکہ تابکاری اور جوہری مواد کی غیر قانونی نقل وحرکت روکی جاسکے۔ قومی سلامتی کیلئے بین الاقوامی تعاون کے تحت آئی اے ای اے کی بنیادی ذمہ داری ہے اور اس کا مرکزی کردار ہے۔ ہمارے پاس تجربہ، افرادی قوت اور سول نیوکلیئر انرجی پیدا کرنے کا ڈھانچہ موجود ہے۔ وزیراعظم کی حیثیت سے میں محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان کو سنگین توانائی کے خسارے کا سامنا ہے، اب جبکہ ہم اپنی معیشت کو بحال کر رہے ہیں تو ہمیں بین الاقوامی تعاون اور آئی اے ای اے کے تحفظ کے ساتھ جوہری توانائی میں معاونت کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی سمجھوتوں اور فورمز کو چاہئے کہ وہ جوہری سلامتی کیلئے قومی اقدامات کا ساتھ دیں۔ پاکستان جوہری مواد کے فزیکل تحفظ کے کنونشن(سی پی پی این ایم) میں فریق ہے، ہم آئی اے ای اے کے ساتھ ملکر تابکاری ذرائع اور جوہری مواد کی غیر قانونی نقل وحرکت کیخلاف ملکر کام کر رہے ہیں، ہم باقاعدہ طور پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 1540کمیٹی کو ان اقدامات کے بارے میں رپورٹس دیتے رہتے ہیں جو حساس مواد اور ٹیکنالوجی کی منتقلی پر کنٹرول کیلئے کئے جاتے ہیں۔ میں اس سربراہ اجلاس میں یہ اعلان کرنا چاہوں گا کہ ہم سی پی پی این ایم کی 2005ترمیم کی توثیق پر غور کر رہے ہیں اور مختلف تقاضے پورے کرنے کیلئے فعال جائزہ لے رہے ہیں۔ ہم مستقبل کی طرف دیکھتے ہیں، ہمیں چاہئے کہ جوہری سلامتی کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیشرفت کو مزید مضبوط بنائیں، ہمیں سیاسی عزم برقرار رکھنا، دوہرے رویے سے گریز اور رکنیت کو توسیع دینا ہوگی تاکہ اپنے فیصلوں کو زیادہ سے زیادہ قبول کرا سکیں۔ دریں اثنا وزیراعظم نوازشریف اور فرانسیسی صدر فرانسوا اولاندے میں ہیگ جوہری کانفرنس میں ملاقات ہوئی۔ دونوں رہنمائوں نے دفاع اور معیشت کی بحالی کے حوالے سے تعاون پر اتفاق کیا۔ فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف پاکستان کی قربانیوں کی قدر کرتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کردار ادا کریں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ معیشت کی بحالی کیلئے دہشت گردی کا سدباب ضروری ہے بھارت سے اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ ملاقات میں دوطرفہ امور اور افغانستان کی صورتحال پر بھی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم اور جرمن چانسلر انجیلا مرکل کی ملاقات آج ہو گی۔ وزیراعظم نوازشریف آج ہی ہالینڈ سے برطانیہ روانہ ہو جائیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف سے امریکہ، چین اور ترک صدور نے بھی ملاقاتیں کیں۔ امریکی صدر بارک اوباما نے وزیراعظم نوازشریف سے گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملایا اور حال دریافت کیا۔

No comments:

Post a Comment

If You Like This Post. Please Take 5 Seconds To Share It.


comments please

SEND FREE SMS IN PAKISTAN