Wednesday, 18 November 2015

گذشتہ سال میرے پاسپورٹ کی میعاد ختم ہوئی تو میں نے پاسپورٹ آفس جانے اور طویل خواری کا سوچ کر پاسپورٹ کی تجدید کروانے کا خیال ذہن سے جھٹک دیا۔ مگر پی ایچ ڈی کے طالبعلم کی حیثیت سے مجھے بیرونِ ملک کم از کم ایک ریسرچ پیپر شائع کرنا تھا۔ خوش قسمتی سے میرا پیپر امریکا کے شہر سان فرانسسکو کی ایک کانفرنس کے لیے منظور ہوگیا۔ اب مجھے پاسپورٹ کی تجدید بہرحال کروانی ہی تھی۔ پھر ایک منگل کے دن میں نے آخر کار مرکزی پاسپورٹ دفتر جانے کا فیصلہ کر ہی لیا۔ میں صبح 8:30 پر وہاں پہنچا، اور جب میں دفتر کی طرف بڑھ رہا تھا تو ایک درجن لوگوں نے مجھے گھیر لیا جو میرے پاسپورٹ کی تجدید میں میری 'مدد' کرنے کی پیشکش کر رہے تھے۔ ایجنٹس سے ملیے انہیں عام طور پر ایجنٹ کہا جاتا ہے، اور اپنے ہاتھوں میں بینک چالان اٹھائے ہوئے یہ لوگ آپ کو خواری سے بچانے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، لیکن ظاہر ہے کہ ایک قیمت پر۔ وہ 15 منٹ میں درخواست جمع کروانے اور پاسپورٹ گھر پہنچانے کی گارنٹی دیتے ہیں۔ پیشکش اتنی اچھی تھی کہ حقیقی ہو ہی نہیں سکتی تھی، اس لیے میں نے ان کی کسی بھی بات پر توجہ نہیں دی اور سیدھا اندر چلا گیا۔ اندر چار بے ہنگم سی قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ مجھے کچھ معلوم نہیں تھا کہ کیا کروں یا کہاں سے شروع کروں۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر معلوماتی کاؤنٹر تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ خوش قسمتی سے مجھے اپنا ایک ساتھی دکھائی دیا جو پاسپورٹ کی تجدید کے لیے ہی وہاں آیا ہوا تھا۔ اس نے پورا مرحلہ سمجھاتے ہوئے مجھے کہا کہ میں شارعِ فیصل پر عوامی مرکز برانچ میں جاؤں، جو میرے رہائشی علاقے کے لوگوں کے لیے ہے۔ اس نے کہا کہ "وہاں یہاں جتنا رش بھی نہیں ہوگا۔" لیکن اس نے ایک بات بتائی کہ "وہاں کبھی کبھی لنک ڈاؤن ہوجاتا ہے۔" میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور فوراً ریجنل آفس پہنچ گیا۔ ایک بار پھر ڈھیروں ایجنٹس نے مجھے گھیر لیا، اور میں ایک بار پھر انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اندر چلا گیا۔ یہ دفتر پچھلے دفتر سے واضح طور پر بہتر تھا۔ وہاں پر ایک معلوماتی کاؤنٹر بھی تھا۔ ڈیسک پر بیٹھے ہوئے شخص نے مجھے بتایا کہ مجھے بینک میں فیس جمع کروانی ہوگی، اور اس کے ساتھ زائد المیعاد پاسپورٹ، اصلی شناختی کارڈ، اور ان کی نقول چاہیے ہوں گی۔ بینک کی برانچ عوامی مرکز نامی اس عمارت کی دوسری منزل پر تھی۔ میں گیا، فیس جمع کروائی، اور واپس آیا تو ایسی قطار میری منتظر تھی جو میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ لمبا انتظار 10:30 بج رہے تھے اور مجھے یونیورسٹی جانا تھا اس لیے میں نے دوبارہ آنے کا فیصلہ کیا۔ اگلے دن صبح 9:30 بجے میں ایک بار پھر ٹوکن کے لیے قطار میں کھڑا ہوا تھا۔ قطار اتنی لمبی تھی کہ وہ دفتر سے باہر گلی تک پہنچی ہوئی تھی اور لوگ دھوپ میں کھڑے ہونے پر مجبور تھے۔ انتظار کرتے ہوئے میں نے وقت گزاری کے لیے لوگوں سے بات چیت شروع کر دی۔ ان کی باتوں نے مجھے پریشان کر دیا۔ ایک شخص، جو ایک بینک میں سینیئر مینیجر ہیں، نے مجھے بتایا کہ جب وہ آخری دفعہ یہاں آئے تھے، تو وہ تمام مطلوبہ دستاویزات ساتھ لے کر آئے تھے لیکن جب وہ آخری کاؤنٹر پر پہنچے تو ان سے ان کے والدین کے اصل شناختی کارڈ طلب کیے گئے۔ ایک دوسرے شخص نے مجھے بتایا کہ اس سے میٹرک کا سرٹیفکیٹ طلب کیا گیا تھا۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ اس سے بجلی کا تازہ ترین بل مانگا گیا، اور ان سب ہی لوگوں سے کہا گیا کہ بغیر ان دستاویزات کے ان کا کام نہیں ہو سکتا۔ جب میں نے کہا کہ معلوماتی کاؤنٹر نے تو ان میں سے کسی دستاویز کے لیے نہیں کہا، تو وہ میری معصومیت پر مسکرانے لگے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ کہیں اگر آخری کاؤنٹر پر کسی بھی دستاویز کی غیر موجودگی کا جواز دے کر میرا کام ٹرخا دیا گیا تو؟ قطار کچھوے کی رفتار سے آگے بڑھتی گئی، اور آخرکار میں دھوپ سے نکل کر سائے میں پہنچ گیا۔ اچانک سر کے اوپر گرم ہوا محسوس ہوئی۔ دیکھا تو دو اے سی ہیٹر گرم ہوا پھینک رہے تھے۔ آگے بڑھنے پر میں نے ایک سکیورٹی گارڈ کو دیکھا جو قطار کو سیدھا رکھنے کی پوری کوشش کر رہا تھا اور قطار سے باہر نکل کر کسی کو بھی اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہا تھا۔ میں گارڈ کو اس کے لیے سلام پیش کرتا ہوں۔ کئی لوگ سفارشیں لے کر آئے لیکن اس نے کسی کو اندر نہیں جانے دیا۔ آخرکار قطار دفتر کے اندر پہنچ گئی۔ اندر صرف دو کاؤنٹر تھے، ایک مردوں کے لیے اور ایک عورتوں کے لیے۔ لیکن پھر میں نے دیکھا کہ ایک تیسرا کاؤنٹر بھی تھا جو ٹوکن کے لیے تھا۔ میں ایک گھنٹے سے قطار میں کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا مگر چند لوگ ایسے بھی تھے جو باہر جانے والے دروازے سے ایجنٹس کے ساتھ اندر آتے اور قطار میں کھڑے ہوئے بغیر اپنا کام کروا کر نکل جاتے۔ اب ہم سب کو غصہ آگیا۔ مسلسل اس حرکت کی وجہ سے ہماری باری آنے میں تاخیر ہو رہی تھی۔ میرے پیچھے موجود شخص نے چلانا شروع کر دیا۔ ہم نے بھی اس کا ساتھ دیا اور فوراً اسسٹنٹ ڈائریکٹر 'صاحب' آئے اور ہمیں ٹھنڈا کیا۔ انہوں نے ٹوکن والے شخص کو بھی 'ڈانٹا'۔ دو گھنٹے قطار میں لگے رہنے کے بعد مجھے ٹوکن ملا۔ میں نے تصویریں کھنچوائیں اور انگلیوں کے نشانات دیے، اور پھر ڈیٹا اینٹری کے لیے گیا۔ ٹوکن کاؤنٹر اور ڈیٹا اینٹری کاؤنٹر کے درمیان اتنی کم جگہ تھی کہ آپ صرف کاؤنٹر کی سائیڈ پر کھڑے ہو سکتے تھے۔ مرد، عورتیں، بوڑھے اور بچے سب ہی سانس لینے میں مشکل محسوس کر رہے تھے کیونکہ اے سی بمشکل چل رہے تھے۔ یہ ایک بہت تھکا دینے والا اور ناخوشگوار تجربہ تھا۔ ہم میں سے کچھ لوگوں نے ایک کونے میں لگی ہوئی ننھی سی ٹی وی اسکرین پر چل رہے کرکٹ میچ میں دلچسپی لینے کی کوشش کی تاکہ آس پاس کے اس ماحول کو نظرانداز کیا جا سکے۔ سب سے زیادہ خوفناک الفاظ جب مجھے لگا کہ اس سے زیادہ خراب صورتحال تو کچھ نہیں ہوسکتی، اچانک کوئی چلایا: "لنک ڈاؤن!" اس کا مطلب تھا کہ اب کام نہیں ہو سکتا۔ ہم لوگ دم گھٹے ہوئے کھڑے تھے جبکہ اسٹاف آرام سے چائے منگوا کر کرکٹ میچ دیکھنے میں مشغول ہو گیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک بار یونیورسٹی کے ایک ساتھی سے پاسپورٹ کی تجدید کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے بتایا تھا کہ اس نے ایجنٹ کے ذریعے کام کروایا تھا۔ دلچسپ بات ہے کہ ایجنٹ نے اسے کہا تھا "سر جی جلدی کریں، لنک ڈاؤن ہونے کا ٹائم ہو گیا ہے۔" تب ہی مجھے سمجھ آیا کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ اس کے بعد 40 منٹ گزر گئے اور لوگوں میں اشتعال پھیلنا شروع ہو گیا۔ 12:15 بجے تک مجھے لگا کہ میرا کام اس دن نہیں ہوگا۔ کچھ ہی دیر میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے اعلان کیا کہ وہ صرف پاسپورٹ کی تجدید کی درخواستیں قبول کریں گے اور دوسرے کام اب نہیں ہو سکتے۔ یہ میری خوش قسمتی تھی۔ انہوں نے میرا ٹوکن لیا اور مجھے اور میرے دوستوں کو ایک ایک کر کے بلایا۔ 5 منٹ میں میری باری آگئی۔ اس کے بعد وہ آخری کاؤنٹر آیا جس کا مجھے ڈر تھا۔ جب میں کاؤنٹر کی جانب بڑھا تو میں نے ان پریشان اور غصے میں بھرے ہوئے چہروں کو دیکھا جو "لنک اپ ہو گیا ہے" سننے کے لیے بے تاب تھے۔ آخری کاؤنٹر پر 'اسسٹنٹ ڈائریکٹر' کی تختی لگی ہوئی تھی۔ ڈائریکٹر صاحب جو تب تک کافی دباؤ میں تھے، نے کچھ نہیں پوچھا اور میری درخواست پر دستخط کر دیے۔ میرا کام ہو جانے پر جو سکھ کا سانس میں نے لیا، وہ بیان سے باہر ہے۔ لیکن سکھ کے اس سانس کے بعد میں نے سوچا کہ ہماری حکومت عوام کی خدمت کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے۔ یہ صرف میرا تجربہ ہے۔ اس ملک میں لوگ ہر روز سرکاری ہسپتالوں، تھانوں، لائسنس دفاتر، اسکولوں، ضلع کونسلوں اور دیگر سرکاری اداروں میں ایسی ہی خواری سے گزرتے ہیں۔ اور پھر جب ہم پارلیمنٹ لاجز، وزیرِ اعلیٰ ہاؤسز، گورنر ہاؤسز اور ایوانِ صدر کو دیکھیں تو ہمیں کیسا محسوس ہونا چاہیے؟ سیاسی اشرافیہ اپنا خیال تو پوری طرح رکھتی ہے۔ ایک ایڈمنسٹریٹر کی تبدیلی یا ملک کو پولیس اسٹیٹ بنانا یا نیب کو ٹھیک کر دینا ہمیں ایسی قوم نہیں بنا سکتا جو اپنے شہریوں کا خیال رکھتی ہے۔ یہ صرف تب ہوگا جب اعلیٰ ایوانوں میں موجود لوگ اپنی اقدار تبدیل کرنے کا فیصلہ کریں گے۔ صرف تب ہی تبدیلی نیچے تک محسوس ہوگی۔ میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں جب پاکستان میں عوامی خدمت کے لیے سرکاری اداروں کا ضمیر جاگے گا۔ کیا یہ کوئی بہت بڑا مطالبہ ہے؟


Friday, 25 September 2015

سعودی حکومت حج انتظامات پر اربوں ریال خرچ کرتی ہے اور مقامات مقدسہ پر عظیم الشان منصوبوں پر عمل درآمد کیلئے ذرائع استعمال کررہی ہے ، کہاجاتاہے کہ حکومت کو بھی اربوں ریال کامنافع ہوتاہے لیکن اب حقیقت سامنے آگئی ہے اور عرب نیوز نے بتایاہے کہ ریاست حج انتظامات کو اپنی مذہبی ذمہ داری سمجھتی ہے اور حج آپریشن سے کوئی منافع بھی نہیں حاصل نہیں کرتی ۔ ’عرب نیوز ‘نے اپنے اداریئے میں لکھاہے کہ جمعرات کو ہونیوالے سانحے نے ہرایک شخص کو افسردہ کردیاہے اور مزید حفاظتی اقدامات کی ضرورت ہے لیکن محفوظ اورآرام دہ حج کیلئے سعودی حکومت کی کاوشیں بھی نظراندازنہیں کی جاسکتیں ۔شہادتوں پر کوئی عذر نہیں لیکن حجاج کرام میں شعور اور نظم وضبط کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ، ماضی میں بھی حاجیوں کی طرف چلتے ہوئے بیگ اٹھائے رکھنے اور ہدایات کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے واقعات ہوچکے ہیں ۔ دنیا بھر میں جسمانی طورپر ایسے ہجوم کو کنٹرول کرنا ممکن نہیں جہاں لاکھوں لوگ ایک ہی وقت اور محدود جگہ پر موجود ہوں ۔ اخبار نے لکھاکہ 164مختلف ممالک اور کلچر ز کے دو یا تین ملین مسلمانوں کو کنٹرول کرنا بہت بڑا کام ہے ، دنیا میں ایسا کسی ملک کو تجربہ نہیں جویہاں کے حکام نے خوشگوار انداز میں حج انتظامات سے سیکھاہے ، حجاج کو 10ملین کیوبک پانی چاہیے ہوتاہے ، 800سے زائد پروازیں ایک دن میں جدہ کے شاہ عبداللہ ایئرپورٹ پر اترتی ہیں ، لاکھوں سیکیورٹی اہلکار اور رضاکار کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں اور یہ تمام امور سیاست سے بالاتر ہوتے ہیں ، بلاشبہ اس سال درجہ حرارت میں غیر معمول اضافہ بھی حکام کیلئے ایک امتحان تھا۔ ذرائع نے بتایاکہ سعودی عرب میں آنیوالے حجاج کرام کی خریداری اور ہوٹلوں میں قیام سمیت دیگر اخراجات سے سعودی معیشت کو کافی سہارا ملتاہے تاہم خود حکومت اس ضمن میں صرف کرنے کے علاوہ حجاج یا متعلقہ حکومت سے پیسے حاصل کرنے کی کوئی فہرست میں رکھتی ۔


سعودی حکومت کی لالچ: ڈی ڈبلیو کا تبصرہ عازمین حج کی تعداد میں کمی کرتے ہوئے سعودی حکومت حج کے دوران ہلاکت خیز بھگدڑ کا قبل از وقت ہی تدارک کر سکتی تھی۔ لیکن ریاض حکومت کے لیے حجاج کی حفاظت سے زیادہ اہم مالی فوائد ہیں۔ پہلے مسجد الحرام میں کرین کے حادثے میں سو سے زائد زائرین مارے گئے جبکہ جمعرات کو مناسک حج کے دوران منیٰ کے مقام پر شیطان کو کنکریاں مارتے ہوئے جو بھگدڑ مچی، اس میں سات سو زائد افراد لقمہ اجل بن گئے۔ ایران نے ریاض حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ حج کے دوران سعودی انتظامیہ غلطی کی مرتکب ہوئی، جس کی وجہ سے یہ سانحہ پیش آیا۔ سعودی عرب اور ایران کے مابین تاریخی اختلافات کے باوجود اس مخصوص صورتحال میں ایران کی تنقید درست معلوم ہوتی ہے، اس لیے کہ اس تازہ غفلت کے علاوہ بھی سعودی بادشاہت پر تنقید کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔ حج کے دوران بھگدڑ، 700 سے زائد عازمین ہلاک سعودی عرب میں حج کے دوران بھگدڑ مچ جانے کے نتیجے میں سات سو سے زائد عازمین ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی حکام کے مطابق مرنے والوں میں مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے حاجی شامل ہیں۔ (24.09.2015) حج کے دوران بھگدڑ، 450 سے زائد عازمین ہلاک ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار شامل شمس اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ بیسویں صدی کے وسط تک حج سیزن سے حاصل ہونے والی آمدنی سعودی اقتصادیات میں اہم کردار ادا کرتی تھی۔ بعد ازاں تیل کی دریافت کے بعد اس عرب ملک کی قسمت بدل گئی اور یوں یہ خطے کے امیر ترین ممالک کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ یوں سعودی شاہی خاندان نے علاقائی سطح پر سیاسی اور اقتصادی معاملات میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھایا۔ ریاض حکومت نے تیل کی برآمد سے حاصل ہونے والی آمدنی کو حج کے انتظامات بہتر بنانے پر بھی صرف کیا۔ یوں مسلمانوں کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ کی تزئین و آرائش کی گئی اور مکہ میں عازمین حج کو بہتر سہولیات فراہم کرنے کے لیے تعمراتی منصوبے بھی شروع کیے گئے۔ مقصد یہ تھا کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان یہ بہت اہم سالانہ مذہبی فریضہ انجام دے سکیں۔ تبصرہ نگار کے مطابق مسجد الحرام میں تعمیراتی مقاصد کے لیے نصب کردہ کرین کے گرنے کا حادثہ اور بھگدڑ کا سبب دراصل سعودی حکومت کی لالچ تھی۔ ان کے مطابق ریاض حکومت کے نزدیک مذہب ایک بزنس اور پیسہ بنانے کا آلہ ہے۔ پیغمبر اسلام نے خود جس سادگی کی تعلیم دی تھی، وہ اب ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کے مقدس ترین مقامات کے ارد گرد فائیو اسٹار ہوٹلوں، شاپنگ مالز اور لگژری اپارٹمنٹس کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ ریاض حکومت کے لیے یہ مسلم مذہبی فریضہ ایک اقتصادی سرگرمی بن چکا ہے۔ کچھ حلقے سعودی عرب میں لینڈ مافیا کے سرگرم ہونے کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ دوسری طرف سعودی حکومت ان مقدس مقامات تک زیادہ سے زیادہ زائرین کی رسائی ممکن بنانے کے لیے ایسے تاریخی مقامات کو بھی مسمار کر چکی ہے یا کر رہی ہے، جو مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس تصور کیے جاتے رہے ہیں۔ سعودی حکام نے منیٰ کے مقام پر اس بھگدڑ کا الزام ’بدنظم‘ افریقی حاجیوں پر عائد کیا ہے۔ ریاض حکومت کے مطابق ان حاجیوں نے ہدایات پر عمل نہ کیا، جس کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ اس ساںحے سے بچا جا سکتا تھا، اگر حج کے لیے اتنے زیادہ مسلمانوں کو سعودی عرب آنے کی اجازت نہ دی جاتی۔ اگر حاجیوں کی تعداد کچھ کم ہوتی تو انتظامات میں بھی آسانی پیدا ہو جاتی۔ اس سال دو ملین سے زائد مسلمان حج کے لیے سعودی عرب گئے اور مستقبل میں یہ تعداد مزید بڑھتی جائے گی ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار شامل شمس ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار شامل شمس کے خیال میں سعودی حکومت کو زیادہ رقوم عازمین حج کے تحفظ پر خرچ کرنا چاہییں نہ کہ مکہ میں غیر ضروری تعمیراتی کاموں پر۔ وہ لکھتے ہیں کہ ریاض حکومت ان تعمیراتی کاموں کے لیے غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھیکے دیتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو حج سیزن کے دوران سعودی عرب آنے کی ترغیب دی جا سکے۔ تبصرہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ عازمین حج کی تعداد میں آسانی سے کمی کی جا سکتی ہے، سعودی حکومت کو اپنی لالچ ختم کر دینی چاہیے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو مستقبل میں ایسے مزید حادثات بھی رونما ہو سکتے ہیں۔ سعودی ریاست میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر بین الاقوامی برادری عمومی طور پر خاموش ہی رہتی ہے تاہم حج کا معاملہ مذہبی حوالوں کے باعث کچھ زیادہ ہی حساس ہے۔ اب اس بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے۔


حج کے دوران بھگدڑ مچنے سے مرنے والوں کی شناخت ہونا شروع ہو گئی ہے ایران:131 بھگدڑ کے باعث مرنے والوں میں اب تک سب سے زیادہ تعداد ایرانی باشندوں کی سامنے آئی ہے، اور اس حادثے میں ایران کے 131 حاجی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ایرانی کے رہبرِ اعلیٰ خامنہ ای نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سعودی عرب پر سکیورٹی کے مناسب اقدامات نہ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ بھارت: 14 اطلاعات کے مطابق بھارت کے 14 شہری اس حادثے میں مارے گئے ہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے ٹوئٹر کے ذریعے بتایا کہ جدہ میں ہندوستانی سفارت کار نے حادثے میں 14 ہندوستانیوں کے مارے جانے اور 13 کے زخمی ہونے کی خبر دی ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اب سعودی حکام ان اعداد و شمار کی تصدیق کریں گے۔ پاکستان: 7 پاکستان کے مذہبی امور کی وزرات کی ویب سائٹ پر منیٰ حادثے میں کم سے کم سات پاکستانیوں کے مارے جانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر مرنے والوں کی تفصیلات مع پاسپورٹ نمبر شائع کر دی گئی ہیں۔ ویب سائٹ پر شائع تفصیلات کے مطابق چھ زخمیوں کو طبی امداد کے بعد کیپموں میں واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ویب سائٹ پر شائع فہرست کے مطابق کراچی کے حفصہ شعیب اور زرین نسیم، میرپور کی سیدہ نرجس شہناز ، دالبدین کے بی بی زینب، نور محمد، محمد اسلم اور بی بی مدینہ شامل ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم نے سعودی عرب میں پاکستانی سفیر کوہدایت کی ہے کہ وہ زخمیوں کو تمام ممکنہ سہولیات کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہسپتالوں کا دورہ کریں۔ ترکی: 4 انڈونیشیا: 3 کینیا: 3 مرنے والوں میں بعض حاجیوں کا تعلق نائجر اور چاڈ سے بھی ہے تاہم ان کی تفصیلات سامنے آنا باقی ہیں۔


سعودی فرمانرواں شاہ سلمان حج انتظامات کے ازسرنو جائزے کا حکم دیا ہے۔ خادم الحرمین شریفین نے حج کے موقع پر خدمات سرانجام دینے والے سیکیورٹی اہلکاروں کی ہائی کمان کے ایک اجلاس کی صدارت کے بعد اپنے خطاب میں حادثے اور اس میں بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حج انتظامات اور حاجیوں کی نقل و حمل کے طریقہ کار کو بہتر بنایا جائے گا۔ سعودی ولی عہد اور سعودی حج کمیٹی کے سربراہ شہزادہ محمد بن نائف نے جمعرات کو ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں واقعے کی تحقیقات کا حکم دیا ہے جس کی رپورٹ سعودی فرمانرواں کو جمع کرائی جائے گی جس کی روشنی میں وہ مزید اقدامات کی ہدایات جاری کریں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز رمی کے دوران بھگدڑ مچنے سے کم از کم 717 افراد ہلاک اور 800 سے زائد زخمی ہو گئے تھے جن میں سے متعدد کی حالت نازک ہے۔ جس کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔ عرب نیوز کے مطابق حادثہ مکتب نمبر93 کے قریب پیش آیا جہاں زیادہ تر الجزائر کے شہری مقیم تھے۔ سعودی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ دو شاہراؤں کے سنگم پر پیش آیا جہاں دو اطراف سے آنے والے زائرین کا آپس میں ٹکراؤ ہوا۔ وزارت داخلہ کے ترجمان میجر جنرل منصور الترکی نے کہا کہ شدید گرمی اور تھکاوٹ بھی حادثے کی وجہ بنی جو گزشتہ دو دہائیوں میں دوران حج پیش آنے والا سب سے بڑا حادثہ ہے۔ منصور الترکی نے صحافیوں کو بتایا کہ بھگدڑ کی جگہ گذشتہ برسوں کی نسبت حاجیوں کی غیر معمولی تعداد جمع ہو گئی تھی تاحال تو اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی لیکن تحقیقات میں اس بات کا تعین ہو سکے گا کہ اتنی بڑی تعداد میں حجاج کیونکر حادثہ کی جگہ پہنچے۔ سعودی وزیر صحت خالد الفالح کے مطابق سانحہ حجاج کے ایک گروپ بدنظمی کے باعث پیش آیا اور اگر وہ ہدایات پر عمل کرتے تو یہ واقعہ پیش نہ آتا۔ ان کے مطابق بہت سے عازمین حج ٹائم ٹیبل کا احترام نہیں کرتے جو کہ حکام کی جانب سے دیا جاتا ہے اور اس طرح کے واقعات کی وجہ ایسے ہی عوامل بنتے ہیں۔ خیال رہے کہ رواں سال حج کے دوران یہ دوسرا بڑا سانحہ ہے جس کے نتیجے میں ہلاکتیں پیش آئی ہیں۔ اس سے قبل رواں ماہ گیارہ ستمبر کو مسجد الحرام میں کرین گرنے کے نتیجے میں حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں گیارہ پاکستانیوں سمیت کم از کم 107 افراد جاں بحق جبکہ 238 زخمی ہوگئے تھے۔ ادھر ایران نے منیٰ حادثے میں اپنے 130 سے زائد حاجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کرتے ہوئے نامناسب انتظامات پر ہلاکت کا ذمے دار سعودی حکومت کو قرار دیا۔ ایرانی حج آرگنائزیشن کے سربراہ سعید اوہادی نے کہا کہ نامعلوم وجوہات کی بنا پر رمی کے قریب واقع دو راستے بند کر دیے گئے جس کی وجہ سے یہ حادثہ رونما ہوا۔ انہوں نے کہا کہ راستے بند ہونے کی وجہ سے رمی کو جانے والی صرف تین گزرگاہیں باقی رہ گئی تھیں جس کے سبب بعدازاں بھگدڑ مچی۔ ادھر اس ناخوشگوار واقعے پر وزیر اعظم نواز شریف، صدر ممنون حسین، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون، امریکی صدر بارک اوباما سمیت دنیا کے بھر کے رہنماؤں نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔ نوازشریف نے پاکستانی سفیر کو اسپتالوں میں زخمیوں کی عیادت کی ہدایت کی جبکہ منیٰ حادثے میں شہید ہونے والے حجاج کے ورثا سے اظہار تعزیت بھی کیا۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندرا مودی نے ٹوئٹر کے ذریعے واقعے پر افسوس کا اظہارکیا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری بانکی مون نے واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ سانحہ اس لیے بھی زیادہ افسوسناک ہے کہ کیونکہ یہ عیدالضحیٰ کے پہلے دن پیش آیا۔ نیویارک میں موجود پوپ فرانسس نے بھی واقعے پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں واقعے پر لواحقین سے گہرے دکھ اور تعزیت کا اظہار کیا گیا ہے۔ امریکی نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ترجمان نیڈ پرائس نے کہا کہ امریکا منیٰ میں بھگدڑ میں ہلاک اور زخمی ہونے والے زائرین کے اہلخانہ سے اپنی گہری دلی تعزیت اور دلی ہمدردی کا اظہار کرتا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ جہاں مسلمان دنیا بھر میں عید منا رہے ہیں وہیں ہم مصیبت کی اس گھڑی میں آپ کے ساتھ ہیں۔


Thursday, 24 September 2015

منیٰ میں شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران بھگدڑ مچنے سے شہادتوں کی تعداد 310 تک پہنچ گئی ہے جن میں زاہد گل نامی پاکستانی بھی شامل ہےاور 450 افراد کے زخمی ہوئے ہیں جنہیں ہسپتال منتقل کیا جارہاہے ،مقامی ذرائع کا کہناہےزیادہ تر حاجیوں کی شہادت دم گھٹنے کے باعث ہو ئی ہےاور شہید ہونے والوں میں زیادہ تعداد ضعیف العمر افراد کی ہے ۔ سعودی سول ڈیفنس کے مطابق رمی جمرات کے دوران مکتب نمبر 93 کے قریب منی کی گلی نمبر 204 میں بڑے شیطان کو کنکریاں مارنے کے دوران اچانک بھگدڑ مچ گئی جس کے باعث 310حاجیوں کے شہید ہونے کی جبکہ 450حاجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں،مکتب نمبر 93 میں زیادہ تر الجزائر سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام مقیم ہیں۔ریسکیو ٹیموں نے کارروائی کرتے ہوئے زخمیوں کو منیٰ جنرل ہسپتال پہنچانے کاسلسلہ شروع کر دیاہےجبکہ زخمیوں کو موبائل ہسپتالوں میں طبی امداد بھی دی جارہی ہے ۔ڈی جی حج ابو احمد عاکف کا کہناہے کہ واقعہ میں زخمی ہونے والی پاکستانیوں کو طبی امداد دی جارہی ہے،انہوں نے کہا کہ کسی بھی پاکستانی کے شہید ہونے کی تصدیق نہیں کر سکتے۔ ذرائع کاکہناہے کہ بھگدڑ کے نتیجے میں مزید حاجیوں کے شہید ہونے کا خدشہ ہے جبکہ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت انتہائی تشویشنا ک بتائی جارہی ہے ۔ذرائع کاکہناہے کہ شہید ہونے والوں میں سے ایک کی شناخت سامنے آ گئی ہے جس کا نام زاہد گل ہے اور اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔مقامی نیوز چینلز کا کہناہے کہ شہادتوں کی تعداد میں اضافہ دم گھٹنے کے باعث ہواہے، منی میں اس وقت درجہ حرارت 41 سنٹی گریڈ ہے جس کے باعث گرمی کی شدت بھی زیادہ ہے۔مقامی ذرائع کاکہناہے کہ ریسکیو آپریشن میں 220 ایمبولینسز اور 4ہزار ریسکیو اہلکار امدادی کارروائیوں میں حصہ لے ر ہے ہیں ۔ واضح رہے کہ منٰی کا مقام مکہ سے باہر پانچ کلو میٹر دور واقعہ ہے جہاں حاجی مناسکِ حج کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں۔‎حج کے دوران یہ دوسر بڑا ناخوشگوار واقعہ ہے اس سے قبل12ستمبرکو کرین حادثے میں 109عازمین شہید ہوئے تھے جبکہ متعدد حاجی زخمی ہوئے تھے اور آج دوسرے حادثے میں بھگدڑ مچنے سے 310 حجاج شہید ہو گئے ہیں۔


پاکستان علما کونسل کے چیرمین مولانا طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ دنیا بھر سے لاکھوں حاجی بڑے شیطان جمرات العقبہ کو کنکریاں مار رہے تھے کہ بھگڈر مچنے سے متعدد حجاج کرام شہید جب کہ سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ سعودی سول ڈیفنس کے مطابق رمی جمرات کے دوران بھگڈر مچنے سے 150 حاجی شہید جب کہ 400 سے زائد زخمی ہوئے۔مکتب نمبر 93 کے قریب پیش آیا جہاں زیادہ تر الجزائر کے شہری موجود تھے۔ سعودی سول ڈیفنس کے حکام کے مطابق حادثے میں زخمی ہونے والوں کو منیٰ کے قریبی اسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے جب کہ اسپتالوں میں ریڈ الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ سعودی حکومت اور رضا کاروں کی جانب سے امدادی کارروائیاں بھی جاری ہیں تا کہ جانی نقصان کم سے کم ہو۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی سفارتخانے کو ہدایات جاری کر دی گئی ہیں کہ حج پر موجود پاکستانیوں سے متعلق معلومات اکٹھی کی جائیں۔ واضح رہے کہ چند روز قبل مسجد الحرام میں طوفانی بارشوں اور تیز ہواؤں کے باعث کرین گرنے سے 100 سے زائد عازمین شہید جب کہ درجنوں زخمی ہو گئے تھے


ے کی اطلاعات ہیں جس میں ایک پاکستانی زاہد گل بھی شامل ہے۔ تفصیلات کے مطابق رمی جمرات کے دوران مکتب نمبر 93 کے قریب اچانک بھگدڑ مچ گئی جس کے باعث 150حاجیوں کے شہید ہونے کی جبکہ 400حاجیوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہیں،مکتب نمبر 93 میں زیادہ تر الجزائر سے تعلق رکھنے والے حجاج کرام مقیم ہیں۔ریسکیو ٹیموں نے کارروائی کرتے ہوئے زخمیوں کو منیٰ جنرل ہسپتال پہنچانے کاسلسلہ شروع کر دیاہےجبکہ زخمیوں کو موبائل ہسپتالوں میں طبی امداد بھی جارہی ہے ۔ ذرائع کاکہناہے کہ بھگدڑ کے نتیجے میں مزید حاجیوں کے شہید ہونے کا خدشہ ہے جبکہ زخمیوں میں کئی افراد کی حالت انتہائی تشویشنا ک بتائی جارہی ہے ۔ذرائع کاکہناہے کہ شہید ہونے والوں میں سے ایک کی شناخت سامنے آ گئی ہے جس کا نام زاہد گل ہے اور اس کا تعلق پاکستان سے ہے۔محکمہ موسمیات کے مطابق منی میں اس وقت درجہ حرارت 41 سنٹی گریڈ ہے جس کے باعث گرمی کی شدت بھی زیادہ ہے۔ واضح رہے کہ منٰی کا مقام مکہ سے باہر پانچ کلو میٹر دور واقعہ ہے جہاں حاجی مناسکِ حج کی ادائیگی کے لیے جاتے ہیں۔‎حج کے دوران یہ دوسر بڑا ناخوشگوار واقعہ ہے اس سے قبل کرین حادثہ میں 109عازمین شہید ہوئے تھے جبکہ متعدد حاجج زخمی ہوئے تھے اور آج دوسرے حادثے میں بھگدڑ مچنے سے 100 حجاج شہید ہو گئے ہیں۔


Friday, 11 September 2015

کچھ عرصہ قبل سعودی شہزادے ولید بن طلال کی طرف سے اپنی ساری دولت عطیہ کیے جانے کی خبر نے دنیا کو متاثر کیا تھا، اب ایک سعودی بزنس مین نے اسلام کی خدمت کے لیے 1کروڑ ڈالر (تقریباً 1ارب روپے)امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں واقع ییل لاء سکول (Yale Law School)کو عطیہ کرنے کا اعلان کیاہے۔ عطیے کی اس رقم سے کالج میں اسلامی قوانین پر ریسرچ کے لیے ایک سنٹر قائم کیا جائے گا جو امریکہ میں اسلامی قوانین کی ریسرچ کا سب سے بڑا ریسرچ سنٹر ہو گا۔ بزنس مین عبداللہ کامیل نے ییل یونیورسٹی کے وفد سے ملاقات کے بعد رقم عطیہ کرنے کا اعلان کیا۔یونیورسٹی کے وفد میں شامل پروفیسر انتھونی کرون مین نے اس موقع پر کہا کہ عصر حاضر میں پوری مسلم دنیا کو جن چیلنجز کا سامنا ہے ان کا براہ راست تعلق سیاسی حالات و واقعات سے ہے۔ ہر وقت بدلتے سیاسی حالات میں مسلم دنیا کے عوام اسلامی قوانین کی تاریخ اور روایت سے پوری طرف واقف ہی نہیں ہوتے۔دو عشرے قبل ہارورڈ یونیورسٹی میں اسلامک لیگل سٹڈیز پروگرام شروع کیا جا چکا ہے، اس پروگرام کے لیے بھی اس وقت کے سعودی فرماں روا نے مالی مدد فراہم کی تھی۔


If You Like This Post. Please Take 5 Seconds To Share It.


comments please

SEND FREE SMS IN PAKISTAN