ایرانی صدر حسن روحانی نے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات پر زوردیا ہے اور اسے ایک ''دوست اور برادر'' ملک قراردیا ہے۔
ایران کی ایک سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم کی رپورٹ کے مطابق حسن روحانی تہران میں حج حکام کے ایک اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ''ان کی حکومت سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں چھوٹی موٹی شکررنجیوں کے خاتمے کے لیے تیار ہے تاکہ دوطرفہ اور اسلامی دنیا کے مفادات کو پورا کیا جاسکے''۔
حسن روحانی نے بتایا کہ ''سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے تہنیتی خط اور میرے شکریے کے جوابی خط میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے''۔
انھوں نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری ان کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کی اولین ترجیح ہے۔انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے معاملے پر مغربی طاقتوں کے ساتھ کھلے پن کی حکمت عملی اختیار کرنے کو تیار ہیں۔
واضح رہے کہ سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے تھے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک علاقائی ایشوز، لبنان ،شام اور مصر میں جاری تنازعات اور مسائل کے حوالے سے الگ الگ اور ایک دوسرے کے مخالف نقطہ نظر رکھتے ہیں.
مشرق وسطیٰ کی ان دونوں علاقائی طاقتوں کے درمیان کشیدگی اکتوبر 2011ء میں اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب امریکا میں متعین سعودی سفیر عادل الجبیر کے قتل کی سازش پکڑی گئی تھی۔میڈیا میں اس واقعہ کو ''ایران قتل سازش'' قراردیا گیا تھا اور امریکا کے وفاقی ادارہ تحقیقات ایف بی آئی نے اس کو ''آپریشن ریڈکولیشن'' کا نام دیا تھا۔اس سازش کے الزام میں دوایرانیوں منصور ارباب سئیر اور غلام شکری پر نیویارک کی ایک وفاقی عدالت میں فرد جرم عاید کی گئی تھی۔
ایران کی ایک سرکاری خبررساں ایجنسی تسنیم کی رپورٹ کے مطابق حسن روحانی تہران میں حج حکام کے ایک اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔ انھوں نے کہا کہ ''ان کی حکومت سعودی عرب کے ساتھ دوطرفہ تعلقات میں چھوٹی موٹی شکررنجیوں کے خاتمے کے لیے تیار ہے تاکہ دوطرفہ اور اسلامی دنیا کے مفادات کو پورا کیا جاسکے''۔
حسن روحانی نے بتایا کہ ''سعودی شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے تہنیتی خط اور میرے شکریے کے جوابی خط میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے''۔
انھوں نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کی بہتری ان کی خارجہ پالیسی کے ایجنڈے کی اولین ترجیح ہے۔انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے معاملے پر مغربی طاقتوں کے ساتھ کھلے پن کی حکمت عملی اختیار کرنے کو تیار ہیں۔
واضح رہے کہ سابق صدر محمود احمدی نژاد کے دور حکومت میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے تھے۔اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دونوں ممالک علاقائی ایشوز، لبنان ،شام اور مصر میں جاری تنازعات اور مسائل کے حوالے سے الگ الگ اور ایک دوسرے کے مخالف نقطہ نظر رکھتے ہیں.
مشرق وسطیٰ کی ان دونوں علاقائی طاقتوں کے درمیان کشیدگی اکتوبر 2011ء میں اس وقت عروج پر پہنچ گئی تھی جب امریکا میں متعین سعودی سفیر عادل الجبیر کے قتل کی سازش پکڑی گئی تھی۔میڈیا میں اس واقعہ کو ''ایران قتل سازش'' قراردیا گیا تھا اور امریکا کے وفاقی ادارہ تحقیقات ایف بی آئی نے اس کو ''آپریشن ریڈکولیشن'' کا نام دیا تھا۔اس سازش کے الزام میں دوایرانیوں منصور ارباب سئیر اور غلام شکری پر نیویارک کی ایک وفاقی عدالت میں فرد جرم عاید کی گئی تھی۔
No comments:
Post a Comment